بچہ مزدوری ترقی یافتہ معاشرے پر بدنماداغ ہے

محمد ریاض ملک-منڈی پونچھ
بچہ بچہ ہی ہوتاہے۔چاہے وہ امیر کا ہویاپھر کسی غریب کے گھر میں جنم لے۔پیداکرنے والے نے اس کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا۔جسم کے تمام اعضاء ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔بس فرق اتنا کہ کوئی بچہ غریب کے گھر پیداہوااور کوئی صاحب مال کے گھر پیداہوا۔لیکن یہاں مال ودولت والے نے غریب کے بچے کو غلامی میں دیکھنا پسند کیا۔اور اپنے بچے کے مستقبل کو تابناک بنانے کی فکر میں لگ گیاہے۔ یہ سلسلہ دنیاپر آنے کے بعد دنیامیں شروع ہوتاہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں بچے اس وقت بچہ مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔یہ بچہ مزدوری گھریلو کام کاج سے لیکر ہوٹل،لاج،فیکٹریوں، وغیرہ تک جاری و ساری ہے۔ بچوں کے حقوق کی عالمی یا ملکی کوئی بھی تنظیم فعال نہیں ہے۔اور نہ ہی سرکاری طور پر اس قدر ایجنسیاں فعال اور متحرک ہیں کہ اس حساس مسئلہ پر عمل کیاجاتا۔یہی وجہ ہے کہ قوانین ہوتے ہوے بھی بچہ مزدوری دن بدن عرج پر ہے اور یہ سلسلہ بڑھتاہی جارہاہے۔یہاں تک کہ عالمی ادارہ محنت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیامیں ڈیڑ کروڑ سے زیادہ بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔اور اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر دسواں بچہ بچہ مزدور میں مبتلا ہے۔ ہندوستان جس کو کبھی سونے کی چڑیاکہاجاتاتھااور اب بھی حثیت کے اعتبار سے کچھ کم نہیں ہے۔مگر افسوس یہ ہے کہ یہاں بھی بچہ مزدوری پر اس حسین وطن عزیز میں بھی خاموشی ٹوٹنے کانام نہیں لے رہی ہے۔ جموں وکشمیر جو یندوستان کے لئے تاج کا مقام رکھتاہے۔ اس تاج میں بھی بچہ مزدوری ایک غیر فطری داغ ہے۔ جو بظاہر بہت کم نظر آتاہے۔مگر حقیقت میں یہ بہت بڑا اہم مسئلہ ہے۔اس حساس ترین مسئلہ پر تمام تر قوانین ہوتے ہوے بھی اس قدر خاموشی کیوںہے؟ کیا جہاں دنیا کی تمام تر شعبوں پر ایوانوں میں ہلچل بحث و مباحثہ ہوسکتاہے۔اس مسئلہ پر کیوں نہیں؟ یاپھر بچہ مزدوری آج کی سیاست قائدین وعمائیدین کے ہاں کوئی حثیت نہیں رکھتی ہے؟ضلع پونچھ جوایک سرحدی ضلع ہے اور مالی طور پر بھی پسماندہ ہے۔ یہاں پر بھی بچہ مزدوری عام ہے۔ سیول سوسائیٹی، منڈی کے رکن اور سماجی کارکن غلام عباس ہمدانی، جن کی عمر 55سال سے زیادہ ہے اور تاحیات جنہوں نے دبے کچلے لوگوں کی آواز کو بلند کرنے کا کام کیاہے،بچہ مزدوری پر خاموشی کے حوالے سے بتایاکہ بچپن سے لیکر بلوغت تک بچہ کو بنا نے اور بگاڑنے کا وقت ہوتاہے۔لیکن اس دوران بین الاقوامی اور ہر ملک کے اپنے اپنے قوانین ہوتے ہوے بھی بچہ مزدوری پر خاموشی، یہ بچوں کے ساتھ سخت زیادتی اور ناانصافی ہے۔ یہ زیادتی والدین کریں تو بھی، بھائی بہن دوسرے رشتہ دار غرباء امراء غرض جو بھی بچوں کی بلوغت تک پہنچنے سے قبل انہیں مشقت اور مزدوری پر لگائے یا لگوائے، وہ مجرم ہے۔ لیکن نہ جانے یہ قوانین عملانے میں کیوں کوتاہی ہورہی ہے؟بلکہ بچوں کے والدین پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مزدوری، محنت مشقت اور غلامی پر لگانے کے بجائے تعلیم سے آراستہ کریں۔ قانون بنانے والے ادارے قانون لاگو کرنے اور کروانے والے محافظ قوانین پر برسوں برس احتجاج کرنے والے قائدین ان بچوں کے والدین کی مشکلات کو سمجھنے کے لئے قریب آئیںاور کاروباری اداروں، ہوٹلوں،دفاتر،فیکٹریوں، تعمیراتی کام کاج کرنے و دیگر مقامات پر بچہ مزدوری پر نگاہ رکھتے ہوے ان کو قانون کے مطابق مجرم ٹھرایاجاے۔ نہیں تو قوانین اور قوانین کے محافظ ہوتے ہوے بھی بچہ مزدوری مزید عروج پر پہونچے جایگی۔بلاک لورن جو ضلع ہیڈ کواٹر سے قریب 36کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں ایک مقامی باشندہ بشیر احمد شیخ جن کی عمر 40سال ہے،ان کا کہناتھا کہ لورن میں اس وقت 60فیصدی بچے مزدوری کرتے ہیں۔ان بچوں کو مزدوری غریب والدین کی مجبوری کرواتی ہے۔ وہی موجودہ تعلیمی نظام بھی اس قدر غریب اور لاچارنظر آتی ہے۔ ایسالگتاہے کہ یہ تعلیمی ادارے ہی بچہ مزدوری کو جنم دے ر ہے ہیں۔ بارہ سال سے اٹھارہ سال تک کے بچے ہماچل پردیش، پنجاب،چندی گڑھ،دہلی، ممبئی،لداخ وغیرہ ریاستوں میں ٹھیکداروں کے ساتھ میٹوں کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے بہت ہی کم ایسے این جی او اور سیاسی و سماجی کارکن ہونگے جنہوں نے اس معاملہ پر عوام کی رائے چاہی ہوگی یاان بچوں کو مشقت کرتے دیکھ بچہ مزدوری کے خلاف تحریک چلائی ہوگی ۔ لوگوں کو بیدار کیا ہوگا اور ان بچوں کے تعلیم کی فکر کی ہوگی۔اور نہ کبھی کسی سیاسی جماعت نے انتخابات کے دوران ہی اس مدعے کو مقصد بنایاہوگا۔یہی نہیں بلکہ ضلع پونچھ کے چپہ چپہ میں بچہ مزدوری عروج پر ہے۔ سیاسی گھرانوں، ٹھیکداروں،سماجی کارکنوں،آفیسران،ڈاکٹر،،ملازمین،اساتذہ،کے گھروں میں بچوں کو بحثیت ملازم رکھاگیاہے اور تھوڑی سے اجرت دیکر اپنے گھریلو کام کاج کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو اسکول تک لے جانے اور لانے کے لئے رکھاگیاہے۔ امیروں کے بچوں کو یہ غریب کے بچے پال پوس کر اور انہیں باقی غریب بچوں کے سروں پر مسلط کرتے ہیں۔ ایک دو یا تین کا معاملہ یہ نہیں بلکہ ضلع پونچھ میں ہی لاکھوں بچوں کا مستقبل تاریک ہوکر ان کی تمام تر صلاحیتیں محنت اور مشقت پر صرف ہورہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت تمام سیاسی سماجی قائدین اور سرکاری ایجنسیاں اپنے فرض منسبی کو سمجھتے ہوے بچہ مزدوری پر خاموشی توڑیں۔ ملک کے آئین نے بچہ مزدوری پر روک لگانے اور محنت مشقت یاغلامی کروانے والوں کے لئے جو قوانین مرتب کئے ہیں۔ان کو عملاکر اپنے ضلع پونچھ سے بچہ مزدوری کو جڑ سے ختم کرنے کا عزم مسلّم کرنا چاہئے۔ یہ کسی ایک انسان کا نہیں بلکہ ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ امیروں کی غلامی سے غریبوں کے بچوں کو نجات دلوائیں۔سب مل جل کر ہر ایک اپنا فرض سمجھے گا تو وہ وقت دور نہیں جب غریبوں کے بچے بھی مزدوری سے نجات پاکر تعلیم کی طرف راغب ہونگے۔کسی بھی ملک اور سماج کی ترقی اس میں رہنے والے بچوں کے بہتر مستقبل سے ہوتی ہے۔ اگر بچہ تعلیم حاصل کرنے کی جگہ مزدوری کرے گا تو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کا تصور بھی ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)

 

Related Articles