بچوں پر زیادہ بوجھ اچھانہیں

فکرفردا…راجہ اکبردادخان

ہماری کمیونٹی روز اول سے دو اہداف کہ بچے اچھی تعلیم حاصل کر لیں اور معاشی حالات بہتر بنانے کے حوالے سے اچھے اقدامات اٹھ جائیں کے پیچھے تندہی سے لگی نظر آتی ہے، کئی نسلوں نے پچھلی نصف صدی کے عرصے میں قانونی ذرائع سے اتنا کچھ کما لیا ہے کہ آنے والی کئی نسلیں باوقار انداز میں اپنی بسر اوقات کر سکیں گی۔ آبادی میں سے نسبتاً کم تعلیم یافتہ والدین بھی بچوں کی تعلیم کے حوالے سے پْرجوش رہے ہیںاور اکثر والدین بچوں کواس میدان میں آگے بڑھانے میں ہمہ وقت سرگرم نظر آئے، عمومی میڈیا رپورٹس کے مطابق بچے اسکول کمیونٹی کا صاف ستھرا اور مسکراتا چہرہ بن کرا سکول ماحول کو سکون اور مسرتوں کا ذخیرہ بنا دینے میںسب سے آگے چلے آرہے ہیں، آبائی معاشرہ میں چند شعبہ جات مثلاً وکلاء ، ڈاکٹرز اور تعلیم سے جڑے اہم حصوں کے سوا دیگر شعبوں مثلاً اسپورٹس اور اس سے جڑے دیگرشعبہ جات کو پھلنے پھولنے کا بہت کم موقع ملتا ہے مگر برطانیہ اور یورپ میں بچوں کیلئے ان کی پسند کی فیلڈز میں جگہ بنانے میں دشواریاں کم اور کامیابی کی مثالیں زیادہ ہیں۔ یہاں ہمارے نوجوانوں کیلئے تین قسم کی مشکلات سر اٹھاتی دیکھی گئی ہیں، اوّل یہ کہ والدین کی ان کی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے کیا ترجیحات ہیں، دوم یہ کہ بچوں کی مرضی کے کورس کہاں پر مہیا ہیں اور سوم یہ کہ کیا بچے بشمول نوعمرخواتین اپنے شہر سے باہر کسی دوسری جگہ تعلیم کیلئے جا سکیں گی یا نہیں،یہ تعلیم کی آخری اسٹیج کی دشواریاں ہیں جو صرف ہمارے بچوں کودرپیش آتی ہیں، بچوں پر اعتماد کریں اکثر والدین کیلئے ان کی اولادیں خوشیوں کے پروانے لے کر لوٹی ہیں۔ دی ٹائمز میں چند دن قبل ایک تحقیق سامنے آئی کہ تمام مذاہب کے طریقہ تعلیم کو بہتر کرنیکی ضرورت ہے اور کئی بڑے مذاہب میں آج بھی زیرتربیت بچوں کے ساتھ زیادتیوں کا رواج موجود ہے اور کئی مذاہب میں ایسی بدفعلیوں کو پولیس کی توجہ میں نہیں لایاجاتا کیونکہ ایسا ہونے سے وہ مذہب اور ادارہ بدنام ہوتا ہے۔ رپورٹ میں آفسٹیڈ اور مقامی کونسلز پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے کمیٹی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کریں تاکہ ایسے تمام اداروں کیماحول کو تعلیم وتربیت کیلئے محفوظ بنایاجا سکے۔ اس مؤقر اخبار کے صفحات گواہ ہیں کہ راقم بارہا اس موضوع پر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھ چکا ہے کہ ہمارے اداروں میں زیرتعلیم بچوں کی حفاظت کیلئے مقامی ایجوکیشن اتھارٹی کی اوور سائٹ ہونی چاہئیمگر زیادہ جگہوں پر ہمارے بچوں کی بھاری اکثریت مقامی اسکولوں سے واپسی کے جلد بعد مساجد کیاسکول میں چلی جاتی ہے جہاںا نہیں کم وبیش مزید دو گھنٹے گزارنے پڑتے ہیں۔ پرائمری عمر کے ان نوجوان بچے بچیوں کیلئیا سکول کم وبیش 12 گھنٹے کا ہو جاتا ہے جو ہر لحاظ سے بہت تکلیف دہ بن جاتا ہے نہ ہی NPCC،نہ ہی اکثر کونسلز اور نہ ہی چلڈرن کمشنرز نے اس صورتحال کا نوٹس لے کر ایسے اقدامات تجویز کئے ہیں جن سے ایسی سخت جسمانی صورتحال پر قابوپایا جا سکے، ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیونکہ ’’کہن والے بھی اپنے اور کھان والے بھی اپنے‘‘ یہی حال اگر برطانیہ بھر میں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے بچوں سے ہوتا تو حالات کا نوٹس لیا جاچکا ہوتا اور نتائج سامنے آچکے ہوتے اوربہتری کیلئے قدم اٹھ چکے ہوتے، کم عمربچوں پر تعلیمی بوجھ کم کرنے کیلئے ہمارے آفٹرا سکول کلاسز کواختتام ہفتہ کے دن پرکر دینا اچھی سوچ ہو گی، تعلیم کے اس نظام میں ایسی چھوٹی تبدیلیاں کرنا مساجد اور دینی مراکز کے بس میں ہونا چاہئے، ایسی تبدیلیوں سے ہفتہ اور اتوار کا بیشتر وقت کھیل کود اور تفریحی سرگرمیوں کے لئے اور تعلیم کے لئے بچ جائے گا۔ ادارے ایسے ظام کے تحت اگر نوجوان نسل کو آگے بڑھانے کے اقدامات کریں گے تو مستقبل میں دونوں حوالوں سے نوجوانوں کی ایسی نسل ابھرے گی جو ذاتی حوالوں اور اجتماعی نقطہ نظر سے اچھی کمیونٹی سامنے لا سکے گی۔اسلامی مراکز میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اسے شخصی کردار کیلئے اضافی علم کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے آگے لانا چاہئے، اس میں شک نہیں کہ ہمارے دینی اداروں میں ہمہ وقت کئی سو نوجوان لوگ زیرتعلیم ملتے ہیں مگر ملک بھر کی درجنوں کونسلز میں سیکڑوں کونسلرز کی موجودگی کے باوجود ہم برطانوی ایجوکیشن حکام سے یہ تسلیم نہیں کروا سکے کہ وہ ہمارے ان اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان لوگوں کے اس اضافی علم کوکسی قابل شناخت شکل میں تسلیم کروا سکیں۔ یقیناً ایک نوجوان یونیورسٹی طالبعلم جو حفظ قرآن بھی کرچکا ہے وہ کردار کے لحاظ سے دوسروں کی نسبت بہتر کمیونٹی فرد ہے وہ اس طرح کہ یہ نوجوان دو نظام ہائے تعلیم کا نچوڑ ہے، دو ساتھ چلتے نظام تعلیم کئی ذہنوں میں ٹکرائوں کا ماحول بھی پیدا کردیتے ہیں تاہم نوجوانوں کو والدین اور اداروں سے ملتی درست رہنمائی انہیں بھٹکنے نہیں دیتی اور نوجوان معاشرے کے ستون بنتے چلیجاتے ہیں،ہمارے علماء￿ اور مشائخ جو درجنوں عوامی عطیات سے چلنے واے ادارے چلا رہے ہیں آج نصف صدی بعد بھی پرانے طریقہ ہائے تعلیم وتربیت میں جکڑے ہوئے ہیں، کورونا کا مشکل دور ختم ہو رہا ہے، شہر کے دینی اداروں کے طلبہ کے درمیان تعلیم وتربیت کے حوالے سے شمولیت اس شکل میں بھی ہونی چاہئے کہ مختلف موضوعات پر مقالے تحریر کئے جائیں اور تقاریر کا انتظام کیاجانا چاہئے، بچوں میں اس طرح خوداعتمادی بڑھے گی اور جیتنے کے شوق ابھریں گے، ہماریاداروں کے پاس وسائل کی کمی نہیں اس لئے تلاوت قرآن کے سالانہ مقابلے کروانے اور انٹر ادارہ تحریری مقابلوں سے آگے بڑھنے کے شوق مزید اوپر اٹھیں گے۔

Related Articles