بورس جانسن کے استعفیٰ کے بعد حکومتی جماعت کے نئے لیڈر کے چناؤ کی دوڑ شروع

لندن ،جولائی۔ وزیر اعظم برطانیہ بورس جانسن کے استعفیٰ کے ساتھ ہی کنزرویٹو پارٹی کا نیا لیڈر بننے کے لیے دوڑ شروع بوگئی ہے۔ ملک اس وقت طرح طرح کے تبصروں اور بے یقینی صورتحال کا شکار ہے جبکہ ایک ممتاز سابق وزیر اعظم سر جان میجر نے خبردار کیا ہے کہ بورس جانسن کا استعفیٰ دینے کے بعد وزیر اعظم رہنے کا منصوبہ غیر دانشمندانہ ہے اور یہ ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ٹوری 1922 کمیٹی کو لکھے گئے خط میں متنبہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ مسٹر جانسن ایسے فیصلے کرنے کی طاقت کو برقرار رکھتے ہیں جو برطانیہ کی چاروں اقوام اور اس سے آگے کے لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوں۔ سر جان میجر نے مزید کہا کہ ملک کی مجموعی فلاح و بہبود کے لیے، مسٹر جانسن کو ڈاؤننگ اسٹریٹ میں نہیں رہنا چاہیے کہ جب وہ ہاؤس آف کامنز کا اعتماد حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ویلش کے نئے سکریٹری سر رابرٹ بکلینڈ، ایک سابق سالیسٹر جنرل نے کہا ہے اس وزیر اعظم کے پاس اب نئی چیزیں کرنے کا سیاسی اختیار نہیں۔ مسٹر جانسن اس وقت تک وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب تک کہ موسم خزاں تک نیا جانشین نہیں مل جاتا تاہم بہت سے ساتھی اور حزب اختلاف کے سیاست دان چاہتے ہیں کہ وہ اب اقتدار چھوڑ دیں لیکن وہ پہلے ہی کابینہ میں نئی تقرریاں کر چکے ہیں۔ خیال رہے کہ مسٹر جانسن نے استعفوں کے سیلاب کے درمیان اقتدار پر چمٹے رہنے کی دو دن کی مایوس کن کوششوں کے بعد جمعرات کو استعفیٰ دے دیا۔ تقریباً 60 کنزرویٹو ایم پیز نے حالیہ دنوں میں سینئر اور جونیئر دونوں سطحوں پر حکومتی ذمہ داریاں چھوڑ دی ہیں جس سے حکومت کے کام کرنے کی اہلیت پر شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ جمعرات کو اپنی نئی مقرر کردہ کابینہ سے بات کرتے ہوئے، مسٹر جانسن نے وعدہ کیا کہ وہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں اپنا بقیہ وقت ڈائریکشن کی بڑی تبدیلیاں کرنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ٹوری قیادت کی دوڑ کے لیے ایک ٹائم ٹیبل کی تصدیق اگلے ہفتے ہونے والی ہے اور توقع ہے کہ نئے وزیر اعظم ستمبر تک پوزیشن پر آجائیں گے لیکن غیر سرکاری طور پر مقابلہ پہلے ہی جاری ہے۔ خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ مسٹر توگندھت نے جمعہ کو ڈیلی ٹیلی گراف میں لکھ کر قیادت کی مہم میں شامل ہونے کی شروعات کر دیں۔ انہوں نے ٹیکسوں میں کمی اور حکومت کے لیے نئی توانائی اور نئے پرکشش وعدوں کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے بھی خدمات انجام دی ہیں فوج میں بھی اور اب پارلیمنٹ میں۔ اب انہیں امید ہے کہ ایک بار وزیر اعظم کے طور پر کال کا جواب دیں گے۔ اٹارنی جنرل بریورمین نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ وہ کھڑی ہوں گی، جبکہ سابق بریگزٹ وزیر مسٹر بیکر نے کہا کہ لوگوں کی طرف سے ایسا کرنے کے لیے کہے جانے کے بعد وہ سنجیدگی سے ریس میں حصہ لینے پر غور کر رہے ہیں۔ بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ ساجد جاوید، سابق ہیلتھ سیکرٹری اور ٹرانسپورٹ سیکرٹری گرانٹ شیپس جن دونوں نے مسٹر جانسن کے خلاف بغاوت کی تھی بھی اپنی دوڑ شامل میں ہونے پر غور کر رہے ہیں۔دیگر امیدواروں میں خارجہ سیکرٹری لز ٹرس، سابق چانسلر رشی سنک اور سابق سیکرٹری خارجہ جیریمی ہنٹ بھی شامل ہیں۔ آنے والے دنوں میں مزید اعلانات متوقع ہیں – کچھ سینئر ٹوریز بشمول سابق لیولنگ اپ سیکریٹری مائیکل گوو، نائب وزیر اعظم ڈومینک رااب اور سابق ہیلتھ سیکریٹری میٹ ہینکوک پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ دوڑ میں شامل نہیں ہوں گے۔ادھر برطانوی سیاست کے ایک ماہر نے آئی ٹی وی نیوز سینٹرل کو بتایا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کی نو ماہ کی تکلیف نے بورس جانسن کا استعفیٰ ناگزیر بنا دیا ہے۔ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پولیٹیکل پروفیسر ٹام کیگل کہتے ہیں کہ ٹوری پارٹی کے اندر اعتماد کی کمی، پارٹی گیٹ اور ٹام ورتھ ایم پی کرس پنچر کے خلاف الزامات کے بعد، وزیر اعظم کے پاس صرف ایک آپشن رہ گیا۔

Related Articles