انگلینڈ اور ویلز میں طلاق کے قانون میں اہم تبدیلی، اب الزامات نہیں لگائے جائیں گے

لندن ،اپریل۔ انگلینڈ اور ویلز میں فیملی وکلا کی طویل مہم بالآخر کامیاب ہوگئی، جس کے بعد اب انگلینڈ اور ویلز میں طلاق کے قانون میں اہم تبدیلی کردی گئی ہے، جس کے تحت طلاق کیلئے فریقوں کو ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اب طلاق کیلئے ایک دوسرے پر الزامات نہیں لگائے جائیں گے، اس طرح اب زیادہ لوگوں کو اپنے بچوں کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ملے گا اور وہ بچوں کی زندگی کا تحفظ کرسکیں گے۔ اسکاٹ لینڈ میں پہلے ہی طلاق کیلئے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی ضرورت نہیں ہے، اس طرح اب صرف شمالی آئرلینڈ رہ گیا ہے، جہاں اب بھی طلاق کیلئے الزامات لگانے کی ضرورت موجود ہے۔ اب تک کے قانون کے تحت فوری طلاق لینے کیلئے ایک دوسرے پر بدکاری یا نامناسب رویئے کا الزام لگانا پڑتا تھا، ایسا نہ کرنے کی صورت میں دونوں فریقوں کی اتفاق کی صورت میں انھیں ایک دوسرے سے 2 سال تک اور اگر ایک فریق کو علیحدگی پر اعتراض ہو تو 5 سال تک ایک دوسرے سے علیحدہ رہنا پڑتا تھا۔ فیملی قانون کے زیادہ تر ماہرین یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ سسٹم علیحدہ ہونے کے خواہاں افراد کی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے اور اس سے انھیں مالی معاملات، املاک اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس سے لوگ پیار ومحبت سے محروم ہوجاتے تھے۔ نئے سسٹم کے تحت کوئی ایک یا دونوں پارٹنر کوئی وجہ بتائے طلاق کی درخواست دیں اور بیان دیں گے کہ ان کی شادی کا خاتمہ ہوگیا ہے، اس کے ساتھ عدالت کیلئے مطلوبہ ڈاکومنٹس جمع کرائیں گے، جس کے بعد کارروائی شروع ہونے کے 20 ہفتے کے اندر مشروط آرڈر کی درخواست کریں گے اور اس کے مزید 6 ہفتے بعد طلاق منطور کرلی جائے گی۔ سول پارٹنر شپ پر بھی یہی اصول نافذ ہوگا۔ جج اب بھی بچوں کی دیکھ بھال اور دولت کی تقسیم کے معاملے میں دخل دے سکیں گے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ہر سال طلاق لینے والے 100,000 افراد کو سہولت ہوگی۔ بلا الزام طلاق کیلئے کئی سال تک جدوجہد کرنے والی لا سوسائٹی کی فیملی لا کمیٹی کرین ڈوواسٹن کا کہنا ہے کہ نیا قانون زیادہ اچھا ہے، اس میں طلاق لینے والوں کے وقار کا بھی خیال رکھا گیا ہے اور اس میں کچھ خودمختاری دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے کلچر کا حصہ بنے گی اور اس سے مالی معاملات اور بچوں کے معاملات حل کرنا آسان ہوجائے گا۔ انگلینڈ اور ویلز میں کم وبیش ہر تیسری شادی طلاق پر ختم ہوتی ہے۔ طلاق سے پہلے باہمی افہام وتفہیم پیدا کرنے کیلئے قائم ادارے کی سربراہ کیٹ ڈیلی کا کہنا ہے کہ جب کوئی جوڑا علیحدگی کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا سب سے قیمتی سرمایہ باہمی تعاون کا ہوتاہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ طلاق کے عمل سیالزامات کے زہر کو نکال دیا جائے کیونکہ الزامات سے تلخیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جن دوسرے ممالک میں بلا الزام طلاق کا قانون رائج ہے، ان میں سوئیڈن، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا، سپین اور مالٹا شامل ہیں۔ وزیر انصاف ڈومنک راب کا کہنا ہے کہ حکومت نے تبدیلی کی ضرورت پر کام کیا ہے، ہم طلاق سے الزامات کا خاتمہ کر رہے ہیں، 21ویں صدی میں طلاق کا مہذب طریقہ یہی ہے۔

 

Related Articles