انٹرنیٹ اور موبائل کی تباہ کاریاں

عارف عزیز (بھوپال)
انٹرنیٹ اور موبائل فون کے بے جا استعمال سے انسان تنہائی پسند ہو کر رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جن کے ہزاروں دوست ہوتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں ان کا کوئی پرسان حال، دوست اور غم خوار نہیں ہوتا۔ کڑے وقتوں پر ایسے افراد کا نفسیاتی عوارض میں گرفتار ہونا اور مایوسی کا شکار ہونا ایک فطری امر ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل کی وجہ سے خاندانی تانے بانے بکھرنے لگے ہیں۔ موبائل کے بے جا استعمال نے والدین کو اولاد سے، شوہر کو بیوی سے، اولاد کو ماں باپ سے گھر میں رہتے ہوئے بھی گفت و شنید سے محروم کر دیا ہے۔ یہ بہت ہی قابل تشویش پہلو ہے کہ بچوں کو کمپیوٹر، موبائل گیمس اور انٹرنیٹ سے فرصت نہیں، ماں باپ کو اپنی نوکری اور سوشل میڈیا کے دوستوں سے فرصت نہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہم نے بچوں کی صحیح تربیت، رشتے داروں کے حقوق و صلہ رحمی اور ازدواجی حقوق کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ تیزی سے تنزل کی جانب گامزن ہے۔ رشتے داریاں ختم ہونے لگی ہیں اور خاندان بکھرنے لگے ہیں۔کسی بھی چیز کے مثبت اور منفی دو پلو ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہر انسانی ایجاد میں افادیت کے ساتھ نقصان کا بھی اندیشہ پایا جاتا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی دیگر اشیاء کی طرح بذات خود کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں جب تک ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون انسانی استعمال کے محتاج ہیں۔ جب ہم اس سے فائدہ اٹھانائیں گے تو یہ فائدہ مند ہوں گے اور جب ہم اپنے مقصد سے انحراف کرنے لگیں تب یہ نقصان کا سبب بن جائیں گے۔ موبائل فون کو عمرعیار کی زنجبیل اور جام جمشید سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں زندگی سے وابستہ تمام تر معلومات پنہاں ہیں۔ موبائل فون بیک وقت فون، ٹی وی، کمپیوٹر، ریڈیو، الارم، کیلکیولیٹر، ٹیپ ریکارڈ، کیمرہ، ویڈیو کیمرہ اور نہ جانے کیا کیا کام انجام دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا جہاں کی معلومات ایک جنبش میں آپ کی نذر کر دیتا ہے۔ ہیمبرگ یونیورسٹی کے ہانس بریذو انسٹی ٹیوٹ میڈیا ریسرچ سینٹر کے ہینرک شمٹ کے مطابق انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے لئے ایک وجہ ہی کافی ہے کہ اس نے تکنیکی نوعیت کے مسائل دور کرکے تمام کاموں کی انجام دہی کو بہت ہی سہل بنا دیا ہے۔ شمٹ کے مطابق یہ ایک سیدھا سا اصول ہے کہ انٹرنیٹ جتنا زیادہ لوگوں کو سہولیات مہیا کرے گا، لوگ اتنا ہی زیادہ اس پر وقت صرف کریں گے۔ انٹرنیٹ پر تقریباً ۳۵ کروڑ ویب سائٹس موجود ہیں جن میں سے اکثر ویب سائٹس بہت ہی مفید اور کارآمد ہیں۔ مذکورہ ویب سائٹس میں صرف ۲ فیصد یعنی ۷۰ لاکھ فحش ویب سائٹس موجود ہیں۔ یہ حقیقت بھی ایک عبرت، حیرت اور صدمے سے کم نہیں ہے کہ نوے فیصد انٹرنیٹ صارفین اسی دو فیصد ویب سائٹس کو وزٹ کرتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ برائے میڈیا اینڈ آن لائن اڈکشن کے بیرنڈبیرز کے مطابق بوریت اور لوگوں سے دوری ہی آدمی کو انٹرنیٹ کی جادوئی دنیا کی جانب راغب کر رہی ہے۔ بیرنڈیرز کے بموجب ایک ہفتے میں ۳۵ گھنٹے سے زیادہ وقت انٹرنیٹ پر صرف کرنا زیادتی کے زمرے میں آتا ہے لیکن میری نظر میں ۳۵ گھنٹے کی رعایت مغربی ممالک کے لئے مناسب معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے کام اور پیشے کی ضرورت کے مطابق اس کا استعمال کرتے ہیں۔ہمارے مذہب اور دین کے مطابق ہر لغو کام سے بچنا ضروری ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل بھی جب ضرورت ہو تب ہی استعمال کریں ورنہ یہ بھی اصراف کے زمرے میں آئے گا۔ جس کاہمیں جواب دینا پڑے گا، اگر اس کا استعمال ایک منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ نیوز پورٹس اور سوشل میڈیا جیسے فیس بک، ٹوئیٹر، واٹس ایپ وغیرہ یہ کارآمد ثابت ہونے کے بجائے تضیع اوقات کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

Related Articles