امریکی فوج کا پہلا دستہ پولینڈ پہنچ گیا

واشنگٹن/وارسا،فروری۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ نیٹو اتحادی ممالک کی مدد کے لیے مشرقی یورپ کے لیے مزید امریکی فوجی روانہ کریں گے۔ ادھر یوکرائن نے بھی کہا ہے کہ اسے اسلحے کی ضرورت ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی ہفتے کہا تھا کہ وہ مشرقی یورپ کے لیے فوجی روانہ کریں گے۔ مغربی ممالک کو یقین ہے کہ روس یوکرائن پر ایک نیا حملہ کرنے والا ہے۔ تاہم امریکی صدر نے کہا ہے کہ اب اس بات کا خطرہ شدید نہیں رہا لیکن ممکنہ حملے کے لیے تیاری ضروری ہے۔دریں اثناء پولش آرمی نے تصدیق کر دی ہے کہ امریکی فوجیوں کا پہلا دستہ ہفتے کے دن وارسا پہنچ گیا ہے۔ یہ امریکی فوجی مشرقی یورپ میں پہلے سے ہی تعینات مغربی عسکری دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجیوں میں شامل ہو جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ مزید سترہ سو امریکی فوجی جلد ہی پولینڈ پہنچ رہے ہیں۔پولینڈ کے مقامی میڈیا کے مطابق جاسیاونکا نامی شہر کے نواح میں ان فوجیوں کی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے، جہاں عارضی شیلٹر ہاؤسز بنائے گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس علاقے کو رکاوٹیں لگا کر عام شہریوں کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
تین ہزار مزید امریکی فوجیوں کی آمد:پولینڈ میں پہلے سے تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد تقریبا ساڑھے چار ہزار بنتی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے مطابق مشرقی یورپ میں نیٹو اتحادی ممالک کی عسکری مدد کے لیے مزید تین ہزار فوجی روانہ کیے جائیں گے۔بتایا گیا ہے کہ دو ہزار اضافی امریکی فوجی پولینڈ اور جرمنی تعینات کیے جائیں گے جبکہ جرمنی میں پہلے سے موجود ایک ہزار فوجیوں کو رومانیہ منتقل کر دیا جائے گا۔امریکی اور اس کے مغربی اتحادی ممالک کا دعویٰ ہے کہ روس نے یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ کے لگ بھگ فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور وہ ہمسایہ ملک یوکرائن میں فوجی کارروائی کا منصوبہ رکھتا ہے۔تاہم ماسکو حکومت مسلسل ان الزامات کو مسترد کر رہی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا لیکن اپنے مفادات پر سمجھوتا بھی نہیں کرے گا۔ روسی صدر نے اسی ہفتے کہا کہ مغربی ممالک انہیں جنگ پر مجبور کر رہے ہیں۔روس نے اس کشیدگی کی خاطر متعدد شرائط پیش کی ہیں، جن میں یہ بھی ہے کہ یوکرائن کو نیٹو عسکری اتحاد کی رکنیت نہ دی جائے جبکہ مغربی ممالک سابقہ سوویت ریاستوں کے ساتھ ساتھ روس سے متصل مشرقی یورپی ممالک میں عسکری موجودگی مزید نہ بڑھائیں۔یوکرائن بحران میں شدت کے بیچ جرمن چانسلر اولاف شولس نے امریکا کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پیر کے دن شولس امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں یوکرائنی بحران پر جامع تبادلہ خیال کریں گے۔جرمنی نے یوکرائن کو اسلحہ فراہم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ برلن حکومت روس کے ساتھ نارتھ اسٹریم ٹو کا منصوبہ ختم کرنے سے بھی انکار کر چکی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں، جو امریکا سمیت متعدد یورپی ممالک کے لیے الجھن کا باعث ہیں۔ادھر یوکرائن نے کہا ہے کہ اسے بھی اسلحے کی ضرورت ہے۔ ناقدین نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر کییف اس بات پر مصر کے روسی حملے کا بڑا خطرہ نہیں تو وہ عالمی طاقتوں سے اسلحہ کیوں مانگ رہا ہے۔یوکرائنی صدر وولودومیر زیلنسکی نے حال ہی الزام عائد کیا تھا کہ مغربی ممالک روسی حملے کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، جو غلط ہے۔ اسی طرح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھی اپنے دورہ یوکرائن کے بعد اسی ہفتے کہا تھا کہ یوکرائن پر روسی حملوں کے خطرات کے امریکی تجزیوں کی وجہ سے تناؤ بڑھا ہے۔ترک صدر نے یہ بھی کہا تھا کہمغربی ممالک نے یوکرائنی بحران کو زیادہ سنگین بنایا ہے جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن اس تناظر میں مناسب ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ایردوآن اس بحران کے حل کی خاطر جلد ہی روس اور یوکرائن کے مابین ایک سمٹ منعقد کرانے کی کوشش میں ہے، جس کا اہتمام ترکی میں ہی کیا جائے گا۔

Related Articles