امریکہ: خواتین ایتھلیٹس ایف بی آئی پر تنقید کیوں کر رہی ہیں؟
واشنگٹن،ستمبر-امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں خواتین ایتھلیٹس کے ٹیم ڈاکٹر پر جنسی زیادتی کے الزامات اور ان پر وفاقی انٹیلی ایجنسی (ایف بی آئی) کی مبینہ طور پر ناقص تفتیش کے معاملے پر بدھ کو سماعت ہوئی۔سینیٹ کمیٹی کی سماعت میں اولمپک جمناسٹ مک کیلا مارونی نے قانون سازوں کو بتایا کہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ ایف بی آئی کے ایجنٹس نے سابق جمناسٹکس ڈاکٹر لیری نصر کی جانب سے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کی شکایات کی سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات نہیں کیں۔مک کیلی مارونی ان چار ایتھلیٹس میں شامل ہیں جنہوں نے بدھ کو امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔ کمیٹی میں بیان دینے والی دیگر کھلاڑیوں میں سائمن بائلز، الی ریزمن اور میگی نکولس شامل تھیں۔سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی امریکہ میں کم عمر لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراسانی اور زیادتی کا نشانہ بنانے والے ڈاکٹر لیری نصر کے خلاف شکایات کے بعد ایف بی آئی کی تحقیقات میں مبینہ غفلت پر سماعت کر رہی ہے۔امریکہ کی جمناسٹک ٹیم کے ڈاکٹر لیری نصر کے خلاف سیکڑوں کم عمر خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا معاملہ 2017 میں سامنے آیا تھا۔سینیٹ کمیٹی کی سماعت میں امریکہ کی گولڈ میڈلسٹ جمناسٹ سائمن بائلز نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ کی جمناسٹک ٹیم کے ڈاکٹر لیری نصر کے خلاف کھلاڑیوں کی شکایات پر ایف بی آئی نے صرفِ نظر کیا۔واضح رہے کہ سائمن بائلز چار مرتبہ اولمپک میں طلائی تمغہ جیت چکی ہیں اور اس کے علاوہ پانچ بار اس کھیل کی عالمی چیمپئن رہی ہیں۔ عالمی سطح پر انہیں جمناسٹک کی لیجنڈ کھلاڑی کا درجہ دیا جاتا ہے۔سائمن بائلز نے رواں برس ٹوکیو میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں بھی امریکہ کی نمائندگی کی تھی۔ لیکن ذہنی صحت سے متعلق مسائل کی وجہ سے وہ اولمپک مقابلوں سے دست بردار ہوگئی تھیں۔خبر وں کے مطابق سائمن بائلز کا کہنا تھا کہ وہ تنہا لیری نصر کو قصور وار نہیں سمجھتیں بلکہ ان کے نزدیک پورا نظام اس کا ذمے دار ہے جس نے لیری نصر کو یہ استحصال جاری رکھنے کے قابل بنایا۔سائمن بائلز کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی کی ناکامی کے علاوہ یو ایس اے جمناسٹکس، یونائیٹڈ اسٹیٹس اولمپک اور پیرالمپک کمیٹی کو ان واقعات کا علم تھا۔سائمن بائلز اور دیگر کھلاڑیوں کے سینیٹ میں بیان ریکارڈ کرانے کے موقع پر جذباتی مناظر دیکھے گئے اور کئی مواقع پر بیان ریکارڈ کرانے والی کھلاڑیوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔اس موقعے پر ایف بی آئی اے کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے لیری نصر کے خلاف استغاثے کی کارروائی کے آغاز میں ہونے والی تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا۔امریکہ کے محکمہ انصاف کے انسپکٹر جنرل مائیکل ہورووٹز نے رواں سال جولائی میں ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایف بی آئی نے یو ایس اے جمناسٹکس کے بدنامِ زمانہ ڈاکٹر لیری نصر کے خلاف تحقیقات میں پس و پیش سے کام لیا۔ اس کے علاوہ ادارے کے افسران نے تحقیقات میں متعدد اور بنیادی نوعیت کی غلطیاں کیں۔خبروں کے مطابق محکمہ انصاف کی 119 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیانا پولیس میں ایف بی آئی کا فیلڈ آفس لیری نصر کے خلاف موصول ہونے والی شکایات پر مطلوبہ سنجیدگی کا مظاہرہ اور فوری کارروائی کرنے میں ناکام رہا۔اس رپورٹ کے جاری ہوتے ہی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی نے اس معاملے میں ایف بی آئی کی ناقص کارکردگی اور غفلت پر سماعت طلب کرنے کا اعلان کیا تھا۔لیری نصر کون ہے؟لیری نصر کھیلوں کی نگرانی کے ادارے یو ایس اے جمناسٹکس سے منسلک ڈاکٹر تھے۔ یہ ادارہ امریکہ میں اولمپک کھیلوں کے لیے کھلاڑیوں کو تربیت فراہم کرتا ہے۔ 2015 میں ایف بی آئی کو لیری نصر کے خلاف جنسی زیادتی اور ہراسانی کی شکایات موصول ہونا شروع ہوئی تھیں۔بعدازاں 2017 میں انہیں بچوں کے جنسی استحصال کے جرم میں 60 سال کی سزا ہوئی جب کہ اگلے ہی برس مشی گن کی عدالت نے لیری نصر کو جنسی زیادتی اور ہراسانی کے مختلف الزامات میں 175 برس تک قید کی سزا سنائی تھی۔مقدمے کی سماعت کے دوران لیری نصر کی زیادتی کا نشانہ بننے والی بہت سی خواتین نے براہ راست بیان دیتے ہوئے بتایا تھا کہ کہ لیری اپنے گھر پر، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں اْس کے اپنے دفتر میں اور یو ایس اے جمناسٹکس کی گورننگ باڈی سے منسلک رہنے کے دوران اْنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے تھے۔اس مقدمے میں استغاثہ کی وکیل اینجلا پوویلیٹس نے کہا تھا کہ جمناسٹکس میں مقابلہ بازی کی فضا لیری کے لیے اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب کا انتہائی سازگار موقع فراہم کرتی تھی کیوں کہ جمناسٹکس میں آگے بڑھنے کے لیے ایتھلیٹ لیری کو بہت اہم سمجھتے تھے۔استغاثے کے مطابق لیری نے سیکڑوں خواتین کھلاڑیوں کو زیادتی اور ہراسانی کا نشانہ بنایا تھا۔
تحقیقات میں نقائص:ـیو ایس اے جمناسٹکس کے صدر اور سی ای او اسٹیفن پینی کی شکایت پر 2015 میں ایف بی آئی نے لیری نصر کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔اسٹیفن پینی نے انڈیانا پولس کے فیلڈ آفس کے ایجنٹس کو تین ایسی متاثرہ کھلاڑیوں کے نام بھی فراہم کیے تھے جو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے انٹرویو دینے پر آمادہ تھیں۔اس معاملے پر محکمۂ انصاف کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس دور میں ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ انچارج ڈبلیو جے ایبٹ نے لیری نصر کے خلاف موصول ہونے والی شکایات پر باقاعدہ تفتیش کا آغاز نہیں کیا۔ یہ شکایت موصول ہونے کے ایک ماہ بعد ایف بی آئی نے صرف ایک گواہ کا انٹرویو کیا تھا۔سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ انٹرویو ستمبر 2015 میں کیا گیا تھا لیکن اسے فروری 2017 تک دستاویزی شکل نہیں دی گئی۔ جب کہ اس سے قبل دسمبر 2016 میں ایف بی آئی نے لیری نصر کو بچوں کی فحش تصاویر رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔محکمۂ انصاف کی رپورٹ کے مطابق لیری نصر کے خلاف ریکارڈ کیے گئے انٹرویو کو ایک نامعلوم نگران ایجنٹ کے تحت 2017 میں جب حتمی طور پر دستاویزی شکل دی گئی تو اس میں غلط معلومات شامل کی گئیں اور بہت سی معلومات حذف کر دی گئیں۔ایف بی آئی کے فیلڈ آفس نے ریاست یا مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی لیری نصر کے خلاف الزامات سے آگاہ نہیں کیا۔محکمۂ انصاف کی رپورٹ میں مزید یہ بتایا گیا کہ ایجنٹ ایبٹ نے مفادات کے تصادم کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یو ایس اولمپک کمیٹی سے اپنی ملازمت کے لیے اس دوران بات چیت بھی کی جب وہ لیری نصر کے خلاف تحقیقات کررہے تھے۔ ایبٹ 2018 میں ایف بی آئی سے ریٹائر ہوئے۔رپورٹ کے مطابق ایجنٹ ایبٹ اور نامعلوم نگران اسپیشل ایجنٹ کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔لیری نصر کے خلاف مقدمات میں سزاؤں کے بعد اس معاملے میں امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کا کردار بھی زیر بحث آیا تھا۔ ایف بی آئی کے کردار پر رواں برس محکمۂ انصاف کی رپورٹ کے بعد امریکی سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی نے اس معاملے پر سماعت طلب کی گئی۔