افغانستان کے ایک مدرسے میں دھماکے سے متعدد طلبہ ہلاک

کابل،دسمبر۔شمالی افغانستان کے ایک مدرسے میں بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 19 افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں بیشتر نو سے پندرہ برس کے بچے ہیں۔افغانستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق 30 نومبر بدھ کے روز صوبہ سمنگان کے شہر ایبک کے ایک دینی مدرسے کی عمارت کے اندر دھماکہ اس وقت ہوا، جب لوگ نماز ادا کر کے باہر نکل رہے تھے۔خبروں کے مطابق ایبک شہر میں مقامی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ متاثرین میں سے زیادہ تر مدرسے کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، یہ سب بچے اور عام لوگ ہیں۔  ایک صوبائی اہلکار نے بھی الجہاد نامی اسلامی درس گاہ میں ہونے والے دھماکے کی تصدیق کی، تاہم انہوں نے ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار فراہم نہیں کیا۔ طالبان حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں 10 طلبا ہلاک اور دیگر متعدد زخمی ہوئے۔ تاہم طالبان اکثر ہلاکتوں کے اعداد و شمار کو کم کر کے بتاتے ہیں۔ طالبان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع تکور نے اپنی ایک ٹویٹ کہا، ہمارے جاسوس اور سکیورٹی فورسز اس ناقابل معافی جرم کے مرتکب افراد کی شناخت اور انہیں ان کے اعمال کی سزا دینے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم طالبان نے اپنے ایک بیان میں اس کے لیے اسلامک اسٹیٹ نامی شدت پسند گروپ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس حملے سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان جنگجو عمارت کے فرش پر بکھری ہوئی لاشوں کے درمیان راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان ویڈیوز کی فوری طور پر آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکی۔تصاویر میں خون میں لت پت نماز کی چٹائیاں، ٹوٹے ہوئے شیشے اور دیگر ملبہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ایک مقامی ڈاکٹر نے بتایا کہ کچھ شدید زخمیوں کو مزار شریف کے بڑے ہسپتالوں کو بھی منتقل کیا گیا ہے، جو وہاں سے تقریباً 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ایبک افغانستان کا ایک تاریخی شہر ہے جو چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں ایک تجارتی مرکز اور بدھ مت کے ماننے والوں کے مرکز کے طور پر کافی مشہور تھا۔ یہ دارالحکومت کابل کے شمال میں 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔طالبان حکام سمیت دیگر افراد نے بھی کم عمر بچوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنی ایک ٹویٹ میں دھماکے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا اور متاثرین کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔امریکہ نے بھی اس حملے اور بچوں کی اموات پر افسوس کا اظہار کیا، جس نے گزشتہ برس اپنی افواج کو ملک سے نکال لیا تھا۔ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ نے اپنے ایک ٹوئٹ پیغام میں لکھا، امریکہ معصوم شہریوں کے خلاف اس بے ہودہ حملے کی مذمت کرتا ہے۔ تمام افغان بچوں کو بلا خوف اسکول جانے کا حق حاصل ہے۔ گزشتہ برس اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے افغانستان میں اب تک درجنوں دھماکے ہو چکے ہیں اور ایسے بیشتر حملوں کی ذمہ داری اسلامی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) نے قبول کی ہے، جو اپنے آپ کو اسلامک اسٹیٹ خراسان کہتا ہے۔ یہ افغانستان میں سب سے متشدد شدت پسند گروپ ہے، جو ہزارہ جیسی مذہبی اقلیتوں کو بھی نشانہ بناتا رہا ہے، جبکہ طالبان نے ہزارہ برادری کی حفاظت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے حال ہی میں کہا تھا کہ طالبان حکام نے ان کمیونٹیز کو خودکش بم دھماکوں اور دیگر غیر قانونی حملوں سے بچانے کے لیے بہت کم اقدامات کیے ہیں۔ ماہ ستمبر میں دارالحکومت کابل میں ایک خودکش بمبار کے بم دھماکے میں کم از کم 54 افراد ہلاک ہو گے تھے، جن میں 51 لڑکیاں اور نوجوان خواتین شامل تھیں۔ اس وقت حملہ آور نے اس ہال کو نشانہ بنایا تھا، جہاں سینکڑوں طلباء یونیورسٹی میں داخلے کے لیے امتحان دے رہے تھے۔ بعد میں اسلامک اسٹیٹ خراسان نے ہی اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

 

Related Articles