افغانستان کی فوج میں تعینات خواتین اہلکاروں پر اب کیا گزر رہی ہے؟

کابل؍جنوری۔مجھے لگتا ہے کہ میں جیل میں ہوں۔ مجھے گھر میں ہی رہنا پڑتا ہے اور میں باہر نہیں جا سکتی۔ میں بہت خوف زدہ ہوں۔ مجھے خوف ہے کہ طالبان مجھے ڈھونڈ نکالیں گے اور مار دیں گے۔یہ کہنا ہے کہ افغان صوبے ہرات میں قائم افغان نیشنل آرمی کے ہیڈ کوارٹرز میں 207ویں کور میں 10 برس تک خدمات انجام دینے والی 28 سالہ جمیلہ کا، جو اپنا اصل نام زندگی کو درپیش خطرات کے سبب ظاہر نہیں کرنا چاہتیں اور جو آئے روز کسی نہ کسی کے ہلاک ہونے یا غائب ہونے کی اطلاعات سنتی ہیں۔افغانستان پر طالبان کے گزشتہ برس اگست میں قبضے کے بعد وہ خواتین جنہوں نے اس قبضے سے قبل افغان آرمی میں فرائض انجام دی تھیں، وہ بتا رہی ہیں کہ طالبان کے زیرِ تسلط ملک میں کیسے ان کی زندگیاں یکسر تبدیل ہو گئی ہیں۔افغانستان میں چھ ہزار 300 سے زائد خواتین سابق افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) میں تعینات تھیں جن کی زندگیوں کو نہ صرف بطور سابق فوجی اہل کار خطرات لا حق ہیں بلکہ طالبان نے خواتین پر پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔جمیلہ کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اب کوئی امید نہیں ہے کہ حالات تبدیل ہوں گے اور انہیں نہیں لگتا کہ افغان خواتین فوجیوں کا طالبان کے دور میں کوئی مستقبل ہے۔طالبان نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں خواتین کو کام کرنے سے منع کرنے کے علاوہ ثانوی تعلیم اور لمبا سفر کرنے پر پابندیاں شامل ہیں۔انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ اور اقوامِ متحدہ نے نومبر میں طالبان پر 100 سے زائد سابق افغان سیکیورٹی اہل کاروں کو ہلاک کرنے کے الزامات لگائے تھے۔ جب کہ طالبان کی طرف سے عام معافی دیے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔جمیلہ کا مزید کہنا تھا کہ اس کے باوجود کہ طالبان کے سینئر رہنماؤں کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے طالبان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔واضح رہے کہ چھ ہزار تین سو سے زائد خواتین جو کہ ملک کی تین لاکھ کی فورسز کا حصہ تھیں، ان کا سیکیورٹی فورسز کا حصہ بننا قدامت پسند معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی تھی۔امریکہ کے افغانستان کے تعمیر نو سے متعلق ادارے ‘سیگار’ کی جولائی میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 4253 خواتین پولیس، 1913 آرمی اور 146 خواتین ایئر فورس کا حصہ تھیں۔
خوف کے سائے تلے زندگی:جمیلہ کا کہنا تھا کہ وہ اب ایک مقام سے دوسری جگہ منتقل ہوتی رہتی ہیں تا کہ کوئی ان کی شناخت نہ کر لے۔دو بچوں کی والدہ جمیلہ کے بقول ان کی فیملی نے ان کے اے این ڈی ایس ایف میں جانے کی مخالفت کی تھی اور ان کا خاندان اب ان حالات کا ذمہ دار انہیں ٹھیرا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے افراد انہیں کہہ رہے ہیں کہ تم ہی آرمی کا حصہ بنی تھیں اور اسی وجہ سے ان کی زندگیاں اب خطرے میں ہیں۔خیال رہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے سے قبل متعدد خواتین، سرکاری اہل کار اور سماجی کارکن ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے تھے۔
‘پاکستان فرار ہونے کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا:افغان صوبے ہرات میں تعینات سابق افغان خاتون فوجی اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پاکستان فرار ہونے کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا۔پچیس سالہ سابق افغان خاتون فوجی اہلکار کی طرف سے بھی سیکیورٹی خدشات کے سبب نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ کابل پر قبضے کے بعد وہ ایک اور خاندان کے ہمراہ پاکستان چلی اآئی تھیں۔ ان کے بقول جو خواتین فوج کا حصہ تھیں، وہ اب خطرے میں ہیں اور طالبان انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ان کے بقول وہ افغانستان میں خواتین کا کوئی مستقبل نہیں دیکھ رہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس خیال کو ذہن سے نکال دیں کہ طالبان خواتین کو کاموں پر جانے دیں گے۔

Related Articles