افغانستان میں مسلسل دوسرے جمعے مسجد میں دھماکہ، 33 افراد ہلاک

قندھار،اکتوبر۔افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں اہلِ تشیع کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 33 نمازی ہلاک اور 73 زخمی ہوئے ہیں۔خبروں کے مطابق دھماکے کی زد میں آنے والے کئی زخمی افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے جب کہ حکام خدشہ نے اموات کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے حوالے سے معلومات جمع کی جا رہی ہیں۔گزشتہ جمعے بھی افغانستان کے شمالی شہر قندوز میں دھماکہ ہوا تھا جس میں لگ بھگ 46 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔جمعے کو قندھار کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی کئی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں۔ صحافیوں اور دیگر افراد کی جانب سے شیئر کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسجد کے فرش پر کئی مقامات پر خون موجود ہے جب کہ متاثرہ افراد کو دیگر لوگ وہاں سے منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔خبروں کے مطابق مسجد میں موجود عینی شاہدین نے بتایا کہ جمعے کی نماز میں لگ بھگ 500 افراد شریک تھے۔خبروں کے مطابق ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ عینی شاہدین کے مطابق یہ دھماکہ خود کش تھا جس میں ایک حملہ آور نے خود کو مسجد کے دروازے پر دھماکے سے اڑایا جب کہ دو دیگر مسجد کے اندر چلے گئے تھے۔ البتہ ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔خبروں کے مطابق محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ شہر میں قائم میر وائس اسپتال میں 33 ہلاک شدگان اور 73 زخمیوں کو منتقل کیا گیا ہے۔دھماکے کے بعد طالبان کے اہلکار بھی اس مسجد پہنچے اور اسے گھیرے میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اسپتالوں میں جا کر خون کے عطیات دیں تاکہ زخمیوں کے لیے درکار خون کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔دھماکے کے بعد فوری طور پر کسی بھی گروہ کی جانب سے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔قندوز میں داعش کے حملے کے بعد قندھار میں حالیہ دھماکہ طالبان کی حکومت میں ملک میں امن و عامہ کی خراب ہوتی صورتِ حال کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ملک میں یہ دھماکے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب طالبان کو ملک میں معاشی بد حالی اور انسانی بحران کا سامنا ہے۔افغانستان میں اگست میں طالبان کے کنٹرول کے بعد شدت پسند گروہ داعش نے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے تاہم طالبان مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس تنظیم سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش کا وجود نہیں۔ البتہ کچھ شہری شدت پسند تنظیم کے نظریات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔داعش کے حملوں کے بعد مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ملک میں امن قائم ہونے کا جو دعویٰ کیا جا رہا تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔افغانستان میں اہلِ تشیع اقلیت پر حملوں کے بعد یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے مختلف لسانی اور مذہبی فرقوں میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

Related Articles